ہم تو تقصیر ہی تقصیر ہُوا کرتے تھے

کوئی تو بھید ہے اِس طَور کی خاموشی میں
ورنہ ہم حاصلِ تقریر ہُوا کرتے تھے

ہجر کا لُطف بھی باقی نہیں، اے موسمِ عقل
اِن دنوں نالۂ شب گیر ہُوا کرتے تھے

اِن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
پاؤں میں حلقۂ زنجیر ہُوا کرتے تھے

خواب میں تُجھ سے مُلاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۂ تعبیر ہُوا کرتے تھے

تیرے الطاف و عنایت کی نہ تھی حد، ورنہ
ہم تو تقصیر ہی تقصیر ہُوا کرتے تھے

Posted on Apr 02, 2013