تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی

تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی، تیرے جاں نثار چلے گئے
تری راہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِراہ گزار چلے گئے

تیری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے روٹھ کر مرے غم گُسار چلے گئے

نہ سوالِ وصل نہ عرضِ غم نہ حکایتیں نہ شکائتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ راہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جُرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

Posted on Mar 25, 2013