تمھیں تو وعدہ دیدار ہم سے کرنا تھا

غضب کیا ، تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
ہنسا ہنسا کے شب وصل اشکبار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا
ہم ایسی محو نظارہ نا تھے جو ہوش آتا
مگر تمھارے تغافل نے ہوشیار کیا
فسانہ شب غم ان کو ایک کہانی تھی
کچھ اعتبار کیا اور کچھ نا اعتبار کیا
یہ کس نے جلوہ ہمارے سر مزار کیا
کے دل سے شور اٹھا ، ہے ! بے قرار کیا
تڑپ پھر اے دل نادان ، کی غیر کہتے ہیں
آخر کچھ نا بنی ، صبر اِخْتِیار کیا
تمھیں تو وعدہ دیدار ہم سے کرنا تھا
یہ کیا کیا کے جہاں کو امیدوار کیا
نا پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں
وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا
کچھ آگے دیوار محشر سے ہے امید مجھے
کچھ آپ نے میرے کہنے کا اعتبار کیا . . . !

Posted on Aug 08, 2012