گازہ پر آج تلک شام غریباں کا سامان ہے

گازہ پر آج تلک شام غریباں کا سامان ہے

گازہ پر آج تلک شام غریباں کا سامان ہے
جو مصیبت سے بچا لائے اسے وہ شخص کہاں ہے

چھا گیا ملت اسلام پہ مصیبت کا غبار
خون میں تر ہے فلسطین ہر گھر میں فغان ہے

موت نے خطہ کشمیر کو تاراج اور ویران کیا
انکے بچوں کے مقدر میں فقط تیغ و سینا ہے

ہمیں عادت ہے غلامی کی یوں برباد ہیں ہم
ہماری بے بسی بے چارگی چہروں سے عیاں ہے

کسی زمانے میں کہتے ہیں باکمال تھے ہم
آج ہم آندھیوں کی ضد میں ہیں ہر سمت دھواں ہے

اندھیر نگری ہے دنیا میں کہیں دور چلیں
تمہیں بتاؤں بھلا رہنے کے قابل یہ جہاں ہے

Posted on Feb 16, 2011