نفرت کا زہر

نفرت کا زہر

ارباب ارتقاء کا یہ کیسا اصول ہے

صحرا میں ہے گلاب چمن میں ببول ہے

صحرا میں کھو گئی ہے بہاروں کی سر زمین

گلبار موسموں کی تمنا فضول ہے

جس کو صلیب وقت پر لٹکا دیا گیا

شاید کے سچ کہا ہے یہی اسکی بھول ہے

اپنی انا کے سامنے مجبور ہوگیا

ہوتا جو سر کا تاج وہ قدموں کی دھول ہے

اپنی حیات کو کوئی عنوان نا دے سکا دل کے لہو سے لکھ کے

کہانی ملول ہے لمحوں کی اڑتی گرد لے

اب کس جگہ پناہ جب گاؤں گاؤں مردہ رتوں
کا نزول ہے

خود اپنے جسم وہ روح کا لے کیسے جائزہ جب

نفرتوں کا زہر لہو میں حلول ہے

Posted on Feb 16, 2011