آنے کے نہیں ہم


دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم

آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی طور ٹھکانے کے نہیں ہم

اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرا شبی شمع جلانے کے نہیں ہم

اک درد کی دولت ہے جسے بانٹے پھریے
مالک بھی کسی اور خزانے کے نہیں ہم

تو نے تو ابھی کھیل کا آغاز کیا ہے
کردار ابھی تیرے فسانے کے نہیں ہم

اے خالق گال چاہیے کچھ اور بھی وسعت
معمورہِ عالم میں سمانے کے نہیں ہم

کہتے چلے جاتے ہیں کہانی پہ کہانی
اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم

اس شہر کے اندر ہیں فصیلیں ہی فصیلیں
اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم

شہزاد دل و جان پہ جو گزری ہے قیامت
وہ زخم کسی کو بھی دکھانے کے نہیں ہم

Posted on Sep 29, 2012