با نام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا

با نام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا
اُداس نسلوں پہ اب اجاڑہ نہیں چلے گا

ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کو ستارہ نہیں چلے گا

حیات اب شام غم کی تشبیہ خود بنے گی
تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا

چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں !
کہ جان بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا

ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں
ہمارے جزبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا

ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا

Posted on Feb 16, 2011