دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو


وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بناکر دیکھو


پتھروں میں بھی زبان ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کی در و دیوار سجا کر دیکھو


فاصلہ نظاروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نا ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو . . . !

Posted on Jun 18, 2012