غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا

غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
وہ میرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا

گُھورتا تھا میں خلا میں تو سجی تھیں محفلیں
میرا آنکھوں کا جھپکنا ، مجھ کو تنہا کر گیا

ہر طرف اُڑنے لگا تاریک سایوں کا غُبار
شام کا جھونکا ، چمکتا شہر میلا کر گیا

چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری نمی
میں سمندر تھا، وہ سُورج مجھ کو صحرا کر گیا

ایک لمحے میں بھرے بازار سُونے ہو گئے
ایک چہرہ سب پرانے زخم تازہ کر گیا

میں اُسی کے رابطے میں جس طرح ملبوس تھا
یوں وہ دامن کھینچ کر مجھ کو برہنہ کر گیا

رات بھر ہم روشنی کی آس میں جاگے عدیم
اور دن آیا تو آنکھوں میں اندھیرا کر گیا

Posted on May 19, 2011