گلے فضول تھے عہد وفا کے ہوتے ہوئے

گلے فضول تھے عہد وفا کے ہوتے ہوئے
سو چپ رہا ستم نا روا کے ہوتے ہوئے
یہ قربتوں میں عجب فاصلے پڑے کے مجھے
ہے آشْنا کی طلب آشْنا کے ہوتے ہوئے
نا کر کسی پہ بھروسہ کے کشتیاں ڈوبیں
خدا کے ہوتے ہوئے ناخدا کے ہوتے ہوئے
کسی خبر ہے کی کاسہ با دست پھراتی ہیں
بہت سے لوگ سروں پر ہما کے ہوتے ہوئے
فراز ایسی بھی لمحے کبھی کبھی آئے
کے دل گرفتہ رہا دلربہ کے ہوتے ہوئے . . . !

Posted on Aug 08, 2012