گُزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی


گُزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دِل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی

پہلو میں رہ کے دِل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اُس کو یاد بُھلانے کے بعد بھی

وہ حسن ہے کسی میں نہیں تابِ دِید کی
پنہاں ہے وہ نقاب اُٹھانے کے بعد بھی

قُربت کے بعد اور بھی قُربت کی ہے تلاش
دِل مطمئں نہیں تیرے آنے کے بعد بھی

گو تُو یہاں نہیں ہے مگر تُو یہیں پہ ہے
تیرا ہی ذِکر ہے تیرے جانے کے بعد بھی

ساری زمیں کا نُور بھی سُورج نہ بن سکا
شب ہی رہی چراغ جلانے کے بعد بھی

نارِ حسد نے دِل کو جلایا ہے یوں عدیم
یہ تو نشاں رہے گا مِٹانے کے بعد بھی

لگتا ہے کُچھ کہا ہی نہیں ہے اُسے عدیم
دِل کا تمام حال سُنانے کے بعد بھی

Posted on May 19, 2011