سب ہمارے ا?زمائے ہوئے ہیں

کسے پکاریں ہم اس ہجوم غم میں
کے سب ہی ہمارے آزمائے ہوئے ہیں

تم ہی نے ہمیں کر دیا تنہا
ورنہ ہم تو تعلق نبھائے ہوئے ہیں

دھیمے دھیمے آنسو دل سے گرتے ہیں
کے ہم اپنا غم سب سے چھپائے ہوئے ہیں

ان شانوں تک اب رسائی نا رہی
جن شانوں پے آنسوں بہائے ہوئے ہیں

ہم کریں اب کسی پر کیسے بھروسہ
کے زمانے سے دھوکے کھائے ہوئے ہیں

خوشیوں سے بھی اب تو لگتا ہے ڈر
اس قدر زخم ہم نے کھائے ہوئے ہیں

اب دست شناسائی نا بڑھائیں گے ہم
کے زمانے بھر سے ٹھکرائے ہوئے ہیں

Posted on Feb 16, 2011