تیری یاد

تیری یاد

بہت مدتوں کے بعد کل رات

کتاب ماضی کو میں نے کھولا

بہت سے چہرے نظر میں اترے

بہت سے ناموں پے دل پسیجا

ایک صفحہ ایسا بھی آیا

لکھا ہوا تھا جو آنسو سے

عنوان جس کا تھا " تیری یاد "

صفحہ وہ سب سے ہی مبارک تھا

خوشیوں کا ایک نگر تھا

کچھ اور آنسو اس پہ ٹپکے

کچھ اور تھوڑا دل پسیجا

کتاب ماضی کو بند

کر کے

تیرے خیالوں میں کھو گیا میں

نا جانے کب پھر سو گیا میں ! ! !

Posted on Feb 16, 2011

تیری یاد

تیری یاد

ایک جھیل ہے آنکھوں میں جو آباد بہت ہے
صدیوں یونہی رونے کو تیری یاد بہت ہے

Posted on Feb 16, 2011