وہ نفرتوں کے بھنور میں بھی مسکرا کے ملا

اسے تو کھو ہی چکے پھر خیال کیا اسکا
یہ فکر کیسی کے اب ہوگا حال کیا اسکا

وہ ایک شخص جسے خود ہی چھوڑ بیٹھے تھے
گھلائے دیتا ہے دل کو ملال کیا اسکا

تمہاری آنکھوں میں چھلکیں ندامتیں کیسے
جواب بننے لگا ہے سوال کیا اسکا

تمھارے اپنے ارادوں میں کوئی جھول تھا
کہو کے ملنا تھا ایسا مُحال کیا اسکا

وہ نفرتوں کے بھنور میں بھی مسکرا کے ملا
اب اس سے بڑھ کے بھلا ہو کمال کیا اسکا

اب اس طرح بھی نا یادوں کی کرچیاں چنئیں
نا تھا فراق سے بہتر وصال کیا اسکا

یہ سوچ کر نا ملے پھر اسے کبھی خالد
کے جانے ہوگا ندامت سے حال کیا اسکا

Posted on Dec 26, 2011