زخم پھر یاد پرانے آئے


جب بھی ہنسنے کے زمانے آئے

زخم پھر یاد پرانے آئے



بڑا ان کو منایا تو ہمیں

روٹھ جانے کے بہانے آئے



پھر مجھے ٹوٹ کے چاہا اس نے

پھر بچھڑنے کے زمانے آئے



مسکرا کر ہمیں ملنے والے

زندگی بھر کو رلانے آئے



کتنی محروم تھیں نیندیں ان کی

خواب بھی جن کو جگانے آئے



تیری چاہت نے ٹھہرنے نا دیا

راہ میں کتنے ٹھکانے آئے



تو نہیں ہے تو ہوا کا جھونکا

گھر کی زنجیر ہلانے آئے



دل بجھا ہے نا جلے ہیں خیمے

آپ کیوں جشن منانے آئے ؟



اسی امید پے جاگو یارو !

اب وہ کس وقت نا جانے آئے



راس آیا جنہیں صحرا محسن

ان کے قسمت میں خزانے آئے . . ! !

Posted on Sep 03, 2012