وہ مجھ سے پوچھا کرتی تھی

وہ مجھ سے پوچھا کرتی تھی . . . . . .

یہ جو تم لفظ لکھتے ہو

یہ جو تم حرف بنتے ہو

یوں ہی بے نام جذبوں کو

حسین اک رنگ دیتے ہو

تہہ دل میں چھپی باتیں

جسے تم یوں سناتے ہو

یہ کس کے نام کرتے ہو ؟

بھلا وہ کون ہے جاناں ؟

جو یوں نیندیں چراتی ہے ؟

رگ و جان میں اترتی ہے

تمھارے دل میں بستی ہے

بھلا وہ حسن کا پیکر

ذرا ہم کو بھی بتلائو

بھلا وہ کون ہے ہمدم . . . ؟

بھلا وہ کون ہے ہمدم . . . ؟

میں سن کر سب ہی یہ باتیں

بہت دھیرے سے ہنستا تھا

اُسے بیچین کرتا تھا

میں اسکو یوں ستاتا تھا

میں کہتا تھا . . .

میں بتاؤں گا

جب اسکا وقت آئے گا

ابھی کچھ دیر باقی ہے

وہ کہتی تھی

مجھے یہ خوف ہے جاناں . . .

کہیں تم دیر نا کردو !

مجھے یہ مان تھا خود پر

کے بہتے وقت کا دھارا

میں اس مٹھی میں بھر لوں گا

! ! ! ! ! ! مگر شاید ! ! ! ! ! !

اُسے جانے کی جلدی تھی

کے اقرار وفا کے دن

وہ چنچل شوخ سی لڑکی

اور اسکے جھلملاتے نین

منو مٹی میں جا سوئے . . .

میں اسکو ڈھونڈتا ہوں اب

میں خود کو رولتا ہوں اب

ایسے کیسے بتاؤں سب

کے میں جو لفظ لکھتا تھا

کے میں جو حرف بنتا تھا

اسی کے نام کرتا تھا

میں کیسے کہوں یہ اب

کے ہاں جاناں . . . . . . !

تمہیں جو خوف لاحق تھا

وہ تو ہو گیا مجھ سے

میری خالی ہے مٹھی اب

ہاں میں نے دیر کر دی ہے . . .

بہت ہے دیر کر دی ہے . . .

Posted on Aug 31, 2012