اگر ہم دوست ہوتے

اگر ہم دوست ہوتے
تو کرم کی انتہا کرتے
تمھیں پلکوں پہ رکھتے ہم
تمھیں دل میں بساتے ہم
اگر تم روٹھ جاتے تو
تمھیں کتنا مناتے ہم
جو ملنے تم نہیں آتے تو
آ کر خود تمھیں ملتے
تمہاری لغزشوں کو بھی
ہنسی میں ہم اڑا دیتے
اگر اپنی خطا ہوتی
تو خود کو بھی سزا دیتے
مگر یہ سب جب ہی ہوتا
اگر ہم دوست ہوتے تو
مگر اتنا ہی جانا ہے
کے تم نے آج تک ہم کو
پرایا کہہ کر جانا ہے
کبھی ہمدم نا مانا ہے
اگر ہم دوست ہوتے تو . . . . . .

Posted on Feb 16, 2011