دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے

دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے

ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے




اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زبان بات کو بدلا نہیں کرتے



کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے توالگ بات
ہم خود کسی لشکر کو پسپا نہیں کرتے


اک ضبط/ مسافت ہے زمانے کی کڑ ی دھوپ
گھر سے بنا چادر لئے نکلا نہیں کرتے



جس شہر میں جانا نہ ہو لوگوں سے سر راہ

اس شہر کا رستہ کبھی پوچھا نہیں کرتے



اک بار جہاں دل کو لگا لیں تو وہاں پہ
پھر سود و زیاں کیا ہے یہ دیکھا نہیں کرتے



دل ہے تو اسے گرد کا صحرا نہیں کرتے
آنکھوں کو کسی بات پہ دریا نہیں کرتے



بن جائیں تو پھر ان کی پرستش کی مصیبت
پتھر کبھی اس طرح تراشا نہیں کرتے


عقیل کوئی بات ہے خاموش سی لب پہ
کچھ لفظ تو ایسے ہیں جو لکھا نہیں کرتے

Posted on Jan 19, 2013