ایک ٹوٹا انسان کہتے ہیں

ایک ٹوٹا انسان کہتے ہیں

اے زندگی ، تو کہاں لے جا رہی ہے مجھے ،
ہر راہ پے دِکھ رہے ہیں اندھیرے ہی اندھیرے ،

آج مجھے میرے ہی لکشیا کا پتہ نہیں ہے ،
خوشیوں کا تو جیسے نام ہی بھول گئی ہوں میں ،

کہیں کسی راہ پے کوئی دیا تو جلاؤ . . . . ،
مجھے میری زندگی کا وجود تو سمجھائو ،

پہلے ٹوٹا میرا دل ، جس میں سپنے تھے ہزار ،
ٹوٹی جیون کی اُمیدیں ، کیسا یہ پیار . . . ،

بڑی مشکل سے جب تک سنبھالا خود کو ،
دیکھا تو بند ہو چکے تھے آگے بڑھنے کے دروازے ،

میری تنہائی ، میرا اکیلا پن ، بس یہی ہیں میرے پاس ، جیون میں کچھ کرنے کی امید ، آج ہے ایک آس ،

ہونٹوں پے ہنسی دکھانی پڑتی ہے دنیا کو ،
کوئی نا جانے کیسے جیتی ہوں ان تنہائیوں کو ،

کہیں دکھتا ہے کھوئے ہوئے پیار کا سایہ ،
تو کہیں میری اس بد قسمتی کی مایہ . . . . . . . . ،

کیسے سلجھائوں میں اس زندگی کی پہیلی ،
الجھی ہر راہ ہے ، پھیکی ہے زندگی

جو آنکھیں سپنے سجایا کرتی تھیں کبھی ،
ان آنکھوں میں ہے اب سوال کائیں

آج ان میں ایک سونا پن ، ویرانیت سی ہے . . ،
وہ تو سمجھتے ہیں درد کو ، اکیلے پن کو ،

مجھے دیکھ کر ایک ٹوٹا انسان کہتے ہیں . "

Posted on Feb 16, 2011