ہجوم میں تھا وہ کھل کر نا رو سکا ہوگا

ہجوم میں تھا وہ کھل کر نا رو سکا ہوگا
مگر یقین ہے کے شب بھر نا سو سکا ہوگا

وہ شخص جس کو سمجھنے میں مجھ کو عمر لگی
بچھڑ کے مجھ سے کسی کا نا ہو سکا ہوگا

لزرتے ہاتھ ، شکستہ سی ڈور سانسوں کی
وہ خشک پھول کہاں تک پرو سکا ہوگا ؟

بہت اجاڑ تھے پاتال اسکی آنکھوں کے
وہ آنسوؤں سے نا دامن بھگو سکا ہوگا

میرے لیے وہ قبیلے کو چھوڑ کر آتا
مجھے یقین ہے یہ اس سے نا ہو سکا ہوگا

Posted on Dec 01, 2012