اک ذرا سی رنجش سے

اک ذرا سی رنجش سے

اک ذرا سی رنجش سے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجے میں
سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
شک کی زرد ٹہنی پر
پھول بد گمانی کے اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی اجنبی سے لگتے ہیں
غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو ،
آسْرا نہیں ملتا
خاموشی کے وقفوں میں ،
بات ٹوٹ جاتی ہے
اور سرا نہیں ملتا
معزرت کے لفظوں کو ،
روشنی نہیں ملتی
لذت پذیرائی بھی ،
پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کے ،
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
منزلیں سکڑتی ہیں ،
راہ مرنے لگتی ہے
بے رخی کے گارے سے ،
بے دلی کی مٹی سے
فاصلوں کی اینٹوں سے ،
اینٹ جڑنے لگتی ہے
خاک اُڑنے لگتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں ،
واہموں کے سائے سے
عمر بھر کی محنت کو ،
پل میں لوٹ جاتے ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں . . ! !

Posted on Feb 16, 2011