مجھے اب مت ستاؤ تم

مجھے اب مت ستاؤ تم


مجھے آرام کرنے دو ،
مجھے اب مت ستاؤ تم
تھکن صدیوں کی ہے مجھ کو ،
مجھے اب مت جگاؤ تم

میری خاموش آنکھوں سے ،
کوئی قصہ نا کہنا تم
میرے خوابوں میں صحرا ہیں ،
مجھے اب مت رلاؤ تم

دکھوں کی اک کہانی تھی ،
اسی کا آخری حصہ
بہت عرصے سے جاری تھا ،
اسے اب مت دہراؤ تم

میرے ویران کمرے میں ،
تیری تصویر اب بھی ہے
یہ اب کمرے کا حصہ ہے ،
اِسے اب مت ہٹاؤ تم

میرے جانے کی باتوں پر ،
کبھی وہ ہنستا رہتا تھا
میرے جانے کی راتوں میں ،
اسے اب مت ہنساؤ تم

تمھاری ڈائری کے آخری
اوراق میں میں تھا
صفحے یوں تو نا پھاڑو تم ،
مجھے یوں نا مٹاؤ تم

کہیں صحرا ، کہیں ساحل ،
کبھی مٹی ، کبھی پانی
مجھے جو چیزیں بخشیں تھیں ،
اسی سے گھر بناؤ تم

وہیں پر ہوں ، میں ویسا ہوں ،
اب آئے ہو تو رک جانا
تھکن کی داستان اپنی ،
مجھے اب مت سناؤ تم


Posted on Feb 16, 2011