کہیں وہ ملتا تو اس سے لپٹ کے رو لیتے

کہیں وہ ملتا تو اس سے لپٹ کے رو لیتے

کسی کی یاد میں پلکیں ذرا بھگو لیتے
اداس راتوں کی تنہائیوں میں رو لیتے

دکھوں کا بوجھ اکیلے نہیں سنبھلتا ہے
کہیں وہ ملتا تو اس سے لپٹ کے رو لیتے

اگر سفر میں ہمارا بھی ہم سفر ہوتا
بڑی خوشی سے انہی پتھروں پے سو لیتے

تمھاری راہ میں شاخوں پے پھول سُوکھ گئے
کبھی ہوا کی طرح اس طرف بھی ہو لیتے . . . .

یہ کیا کے روز وہی چاندنی کا بستر ہو
کبھی تو دھوپ کی چادر بچھا کے سو لیتے . . . . !

Posted on Feb 16, 2011