خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں!
طلسمِ گنبدِ گردوں کو توڑ سکتے ہیں!
زُجاج کی یہ عمارت ہے سنگِ خارہ نہیں!
خود میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ، ہیچ کارہ نہیں!
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں!
یہیں بہشت بھی ہے، حور جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں!
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا!
وہ پیرہن مجھے بخشا کب پارہ پارہ نہیں
غضب ہے عین کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعلِ ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں

Posted on May 09, 2011