خوشی اور غم کا رشتہ

خوشی اور غم کا رشتہ

میں نے پھولوں سے پوچھا ہے
کانٹوں سے بھی جھگڑا ہوا ہے
پوچھا میں نے خوشی کہاں رہتی ہے
یہ غم کہاں ہوتا ہے

پھول تب مسکرائے ، کانٹوں
نے بھی دکھائی آنکھ مجھ کو
میں تھوڑا سا ڈر گیا تھا پر ،
تھوڑا سا سکون تھا

دونوں نے مل کر تب کان میرا پکڑا ،
ایک راسته دکھایا
ہمیں الگ کر کے دیکھو ، نا پائوگے
کچھ بھی ، سمجھ جاؤ عالم

خوشی وہیں رہتی ہیں ،
جہاں غم کا نگر ہوتا ہے
پھول وہیں رہتے ہیں
جہاں کانٹوں کا گھر ہوتا ہے
جاؤ اسے اب تلاشو ،
اب اسے جا کر ڈھونڈو

پہاڑوں سے بھی پوچھا تھا
میں یہ سوال یارو
غصہ آیا تھا واہ بھی پر
واہ بھی تھا مسکرایا

اسنے بھی مجھے تب ایک راسته
دکھایا ، کہا تب اسنے
یار میرے سینے پر بادل ہیں
بجلیاں گراتے

پر بارشوں کے آغوش میں بھی
سو جاتا ہوں میں اکثر
بغیر بادلوں کے نا
کچھ بھی یار بھاتیں

سمجھ جاؤ عالم ایک بات میری مانو ،
تھوڑا سا مسکراؤ
کبھی بجلی کبھی بارش عالم یہ
ایک عجیب سا اثر ہوتا ہے

خوشی وہیں رہتی ہیں ،
جہاں غم کا نگر ہوتا ہے
گرتی ہے بجلی وہیں جہاں
بارش کا اثر ہوتا ہے

نا کبھی گھبراؤ نا آنسو بہاو ،
تھوڑا مسکراؤ

پہاڑوں نے کہا ہے پھولوں سے
بھی یارو یہ اثر ہوتا ہے

خوشی وہیں رہتی ہیں ،
جہاں غم کا ڈگر ہوتا ہے

Posted on Feb 16, 2011