سبھی چاہتے ہیں جی سے مجھے

میں جانتا ہوں سبھی چاہتے ہیں جی سے مجھے
مگر نکال رکھا ہے برادری سے مجھے

میں اپنے کمرے کی بتّی جلا کے سوتا ہوں
بڑی شدید محبت ہے روشنی سے مجھے

ذرا سا پاؤں پھسلنے پہ گر گیا تھا میں
اجل نکال کے لائی ہے زندگی سے مجھے

نہ سنگ زَن، نہ کوئی سنگ، دشت چھوڑ آیا
جُنوں میں عشق ہوا ہے گلی گلی سے مجھے

تو پھر دماغ میں وہ مستقل ہی رہنےلگے
لگے تھے پہلی نظر میں جو سرسری سے مجھے

میں منطقی تھا بہت دیر تک الجھتا رہا
بچا نہ پایا کوئی پنجۂ پَری سے مجھے

وہ فرشِ ذہن پہ چُپکے سے پاؤں دھرتی ہے
کوئی عجیب تعلق ہے آگہی سے مجھے

یہ کس کی قبر میں ، میں آ گِرا ہوں جیتے جی
یہ کون سانپ ڈرانے لگے ابھی سے مجھے

ملوں جو تجھ سے تو کچھ کہہ سکوں، سو مشقِ سخن۔
مگر اِک اور بھی مطلب ہے شاعری سے مجھے

Posted on Feb 20, 2014