آج کی رات یادوں کے کچھ مہمان آنے والے ہیں

آج کی رات یادوں کے کچھ مہمان آنے والے ہیں

آج اداسی نے پھر چھیڑا ہے ساز
آج درد پھر کچھ سنے گا
تنہائی نئے باندہے ہیں گھنگھرو
آج وقت بھی ٹھہر جائیگا

چاند ! اپنی چاندنی ادھر رکھ جاناں
آنے ہیں آج کچھ بھولے ہوئے سے چہرے
اشکوں ! آج تم بھی جی بھر کے بہ لینا
بہل جا ئیں ایسے ہی شاید احساسوں کے سفینے
نغموں ! آج قدم سنبھل سنبھل کے رکھنا
آج کی رات خوابوں کے نام ہے
ان لمحوں کا ہے چلن ایسا
کے آج تڑپے گی تخلیق لفظ در لفظ
خاموشی کا زہر سب کو پلایا جائے گا

آج کی رات زندگی پے بھری ہے
آج جلائیں گئے خواہشوں کے الائو
ہنستے ہنستے ہوگا آج امیدوں کا قتل
میری زندگی آج پھر میزبان بنی ہے
وہ برس جب جذبات نے لی تھی پہلی انگڑائی
اس برس کی یاد آج مہمان بنی ہے

وہ دور افق پے اٹھتے ہیں غبار
مہمانوں کے قافلے پہنچنے والے ہیں
درد دل کو سنبھالوں اب میں
اے فذاؤں تم ہواؤں پے لکھ لینا
بے ہوشیوں میں نظم جو بنا لوں اب میں . . . !

Posted on Aug 15, 2012