بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفاء کیوں نہیں دیتے

درد شب _ ای _ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلا کیوں نہیں دیتے

مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نقطہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز سدا کیوں نہیں دیتے

پیمان جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تاق
دل والو ! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادی دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ جا ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے

Posted on Aug 23, 2012