دور سے دور تلک ایک بھی درخت نا تھا

دور سے دور تلک ایک بھی درخت نا تھا ،
تمہارے گھر کا سفر اس قدر تو سخت نا تھا ،

اتنے مصروف تھے ہم جانے کی تیاری میں ،
کھڑے تھے تم اور تمہیں دیکھنے کا وقت نا تھا ،

میں جس کی کھوج میں خود کھو گیا تھا میلے میں ،
کہیں وہ میرا ہی احساس تو کم بخت نا تھا ،

جو ظلم سہہ کے بھی چپ راہ گیا نا کھول اٹھا ،
وہ اور کچھ ہو مگر آدمی کا ربط نا تھا ،

انہی فقیروں نے اتحاص بنایا ہے یہاں ،
جن پہ اتحاص کو لکھنے کے لیے وقت نا تھا ،

شراب کر کے پیا اس نے زہر جیون بھر ،
ہمارے شہر میں نیراج سا کوئی مست نا تھا . . . !

Posted on Jul 06, 2012