اس نظم کو عنوان کیا دو گئے

کبھی فرصت میں آؤ تو میری ایک نظم سے ملنا

مگر اس نظم کا دھاگہ

تمھاری یاد کا لہجہ بدلتے ہی نا جانے کیوں الجھ کر ٹوٹ جاتا ہے

تبھی تو اس کی سترین جا با جا بکھری ہوئی ہیں

کوئی تکیے کی شکنون میں بہت ٹوٹی ہوئی نیندوں کی آنکھوں میں پری ہے

کوئی دہلیز پر آہٹ کی بالی کان میں ڈالے کھڑی ہے

کوئی رخسار پے آنسوں کی صورت جم گئی ہے

کوئی دل سے لبوں تک آتے آتے تھم گئی ہے

کوئی بُک شیلف میں بیچین ہاتھوں سے اٹھا کر بن پڑھے رکھی کتابوں میں پڑی ہے

کوئی احساس کی آنکھوں میں کنکر کی طرح اٹکی ہوئی ہے

کوئی اس اٹھ جلے سگریٹ میں لپٹی رہ گئی ہے

جسے جانے کی جلدی میں پئے بن عیش تیرے میں تم نے چھوڑا تھا

زیان کی دھول بن کر پاؤں سے لپٹی ہیں کچھ سترین

کہیں ایک ستر کے اندر شکستہ من سے بھیگی ہوئی پلکیں پری ہیں

کہیں ایک ستر میں وہ چاند اَٹْکا ہے

میرے کمرے کی کھڑکی سے جسے تم دیکھ کر شیشے سے الجھا چھوڑ آئے تھے

کوئی ایک ستر اس چائے کی پیالی میں پڑی ہو گی

پئے جانے کے خواہش میں جو ٹیبل پر ہی رکھی رہ گئی تھی

کہیں ایک ستر میں خابوں کا وہ رستہ بھی رکھا ہے

میں جس پر اپنی آنکھیں بھول آئی ہوں

کہیں ایک ستر کے اندر میری وہ سانس رکھی ہے

تمھاری بے نشان مصروفیت کے بوجھ سے جس کو میں اب تک جی نہیں پائی

کوئی ایک ستر شاید ڈاکیے کی سائیکل کی چین میں الجھی ہوئی ہے

تمہارا خط لیے بن اس سڑک پر کیوں وہ آتا ہے ؟ ؟ ؟

ذرا سا غور سے سننا

ریسیور میں تمہارے فون کے شاید میری آواز رکھی ہو

اِسے اب پارسل کر دو تو میں اس سے بھی کچھ بھیگی ہوئی سترین بنا لوں گی

ابھی دل کی ہتھیلی پر بھی کچھ سترین پڑی ہیں

بہت نازک ہیں ، لفظوں سے چھوا تو ٹوٹ جائیں گی

کوئی ان منتظر آنکھوں میں رکھی ہے

جنہیں تم اپنا کہہ کر بھول جاتے ہو

یہیں ایک ستر کی آنکھوں میں میرا خواب رکھا تھا

تمھاری بیرخی کے پاؤں سے کچلہ پڑا ہے

میرے اس خواب کا تاوان کیا دو گئے ؟ ؟

سنو !

اس نظم کو عنوان کیا دو گئے ؟ ؟

Posted on Aug 25, 2011