کبھی ضد میں تیرے ہو گئے

کبھی ضد میں تیرے ہو گئے ،
کبھی دل نے تجھے گنوا دیا ،

اسی کشمکش میں رہے سدا ،
تو نے یاد رکھا یا بھلا دیا ،

کبھی بےبسی میں ہنس دیے ،
کبھی ہنسی نے ہم کو رلا دیا ،

کبھی پھول سے رہی دوستی ،
کبھی ہاتھ کانٹوں سے ملا لیا ،

کبھی ایک کو اپنا نا کر ‎سکے ،
کبھی خود کو سب کا بنا دیا ،

یوں ہی دن گزر گئے پیار کے ،
کبھی اک خواب خود کو بنا لیا ،

جو خواب ابھرے ان آنکھوں میں
اُنہیں آنکھ میں ہی سلا دیا . . . !

Posted on Jun 14, 2012