کچھ اس ادا سے ملتے ہو جاناں کبھی کبھی

کچھ اس ادا سے ملتے ہو جاناں کبھی کبھی
کانٹے بھی لگنے لگتے ہیں کلیاں کبھی کبھی

جب ضبط غمِ دل پہ نہ جاناں کوئی رہا
موتی سجا لئے ہیں سرِ مژگاں کبھی کبھی

شاید کہ ناخدا کو بھی لوگو خبر نہ ہو
رخ اپنا موڑ لیتے ہیں طوفاں کبھی کبھی

کچھ یوں لگا کہ حُسن ستاروں میں گھِر گیا
دیکھی جو ان کی مانگ میں افشاں کبھی کبھی

دل پر لگی جو چوٹ تو جی بھر کے رو لئے
یوں بھی کیا ہے درد کا درماں کبھی کبھی

ناداں ہو اس قدر تمہیں یہ بھی خبر نہیں
چلتے ہیں مصلحت سے بھی انساں کبھی کبھی

تم ان کو کیا کہو گے جو جھوٹی انا کے ساتھ
دیکھے گئے لباس میں عُریاں کبھی کبھی

ایثار میں وفا میں عقیدت میں پیار میں
اعجاز وہ لگا ہے نمایاں کبھی کبھی

اعجاز اسلم

Posted on Jan 28, 2013