قصہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا

قصہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا
میں آپ ، وہ جناب سے آگے نہیں بڑھا

مدت ہوئی کتاب محبت شروع کیے
لیکن میں پہلے باب سے آگے نہیں بڑھا

لمبی مسافتیں ہوں مگر اس سوار کا
پاؤں ابھی راقاب سے اگی نہیں بڑھا

لوگوں نے سنگ و خشت کے قلعے بنا لیے
اپنا محل تو خواب سے آگے نہیں بڑھا

وہ تیری چال ڈھال کے باری میں کیا کہے
جو اپنے احتساب سے آگے نہیں بڑھا

رخصار کا پتہ نہیں اُنہیں تو خوب ہو
دیدار ابھی نقاب سے آگے نہیں بڑھا

وہ لذّت ای گناہ سے محروم ہی رہا
جو خواہش ثواب سے آگے نہیں بڑھا . . . !

Posted on Jul 18, 2012

قصہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا

قصہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا
وہ آپ میں جناب سے آگے نہیں بڑھا

مدت ہوئی کتاب محبت شروع کیے
لیکن میں پہلے باب سے آگے نہیں بڑھا

لمبی مسافتیں ہیں مگر اس سوار کا
پاؤں ابھی رکاب سے آگے نہیں بڑھا

رخسار کا پتہ نہیں آنکھیں تو خوب ہیں
دیدار ابھی نقاب سے آگے نہیں بڑھا

وہ لذت گناہ سے محروم ہی رہا
جو خواہش ثواب سے آگے نہیں بڑھا

Posted on Jul 02, 2011