وعدہ حور پہ بہلائے ہوئے لوگ ہیں ہم

وعدہ حور پہ بہلائے ہوئے لوگ ہیں ہم
خاک بولیں گے کے دفنائے ہوئے لوگ ہیں ہم ،

یوں ہر اک ظلم پی دم سیدھے کھڑے ہیں
جیسے دیوار میں چنوائے ہوئے لوگ ہیں ہم ،

اس کی ہر بات پہ لبیک کیں نا کہیں
زر کی زنجیروں پہ بلوائے ہوئے لوگ ہیں ہم ،

جس کا جی چاھی وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم ،

ہنسی آئے گے بھی تو ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے
زندگی یوں تیرے زخمائے ہوئے لوگ ہیں ہم

آسمان اپنا ، زمین اپنی نا سانس اپنی تو پھر
جانے کس بات پہ اترائے ہوئے لوگ ہیں ہم

جس طرح چاہے بنا لے ہمیں اے وقت
درد کی آنچ پر پگھلائے ہوئے لوگ ہیں ہم . . . !

Posted on Jan 09, 2012