وہ سامنے آئے تو نظروں کو جھکا لوں گی

وہ سامنے آئے تو نظروں کو جھکا لوں گی
دیکھوں گی نہیں پھر بھی تصویر بن لوں گی

آنا ہو تو آ جو رسوائی نہیں ہو گی
دیکھے گا نہیں کوئی پلکوں میں چھپا لوں گی

جو ہم پر گزری ہے وہ ایک بار گزر جائے
ہر غم کی طرح تجھ کو سینے سے لگا لوں گی

ویران اگر دل ہو آنکھوں میں اندھیرا ہو
یادوں کیے دیے اپنی پلکوں میں سجا لوں گی

منظور اگر ہو گی رسوائی تیری مجھ کو
میں بیٹھ کر ساحل پر طوفان اٹھا لوں گی

کیوں مجھ سے خفا ہوں کر وہ دور گئے
بانہوں میں وہ آ جائے میں ان کو مانا لوں گی . . . !

Posted on Jul 19, 2012