آ جائے بلوا مجھے آقا تیرے در سے

آ جائے بلوا مجھے آقا تیرے در سے
جس در کی غلامی کو تو جبریل بھی ترسے

پیدل ہی نکلتے ہیں ، مسافت کا نہیں خوف
تھکتے ہی نہیں ہم تو مدینے کے سفر سے

سنت پہ تیری چلنے کا آ جائے قرینہ
یہ ابر کرم کاش میری دشت پہ برسے

ذرا بھی لگے گوہر و الماس سے بڑھ کر
دیکھے تو کوئی خاک ارب میری نظر سے

ایک میں ہی نہیں طالب جلوہ میرے آقا !
ہر ایک مسلمان تیرے دید کو ترسے

ناموس محمد کے لیے جان بھی دوں گا
ہو جاؤں گا واقف میں شہادت کے ہنر سے

دنیا کے فقط چند ہی لمحات تھے گزرے
ہو آئے پیامبر میری صدیوں کے سفر سے

جو شام و سحر صل اعلی کہتا رہے گا
آئے گا بلوا اسے آقا کے نگر سے

کچھ خوف نہیں مجھ کو کڑی دھوپ کا امجد
سایہ مجھے ملتا ہے رسالت کے شجر سے . . . !

Posted on Jul 28, 2012