امید بہار رکھ

آنکھوں کو ہو سکے تو ذرا اشکبار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

غم سے جو ہے تعلق اسے استوار رکھ
رکھنا ہی ہے اگر تو دل سوگوار رکھ

سرچشمہ تیرے دل میں محبت کا ہے اگر
سوکھے ہر ایک ہونٹ پہ آنسوں کی دھار رکھ

اے موت زندگی کا ابھی ہاتھ میں ہے ہاتھ
تھامونگا تیرا ہاتھ بھی ، تو اعتبار رکھ

دل میں نہیں جو عشق تو کاہے کی بندگی
سجدے میں اپنے سر کو اگرچہ ہزار رکھ

کعبہ اگر نہیں تو اسے بت کدہ بنا
دل میں خدا کی یاد یا تصویر یار رکھ

حملے شدید ہونگے انا کے خطیب پھر
قائم خودی کے گرد خدا کا حصار رکھ

Posted on Feb 16, 2011