شعراء 

خدا اور خلق خدا


یہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہوئے
بے نام و نشاں پتوں کی طرح
بے چین ہوا کے رستے میں گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے
آنکھوں میں شکستہ خواب لئے
سینے میں دلِ بے تاب لئے
ہونٹوں میں کراہیں ضبط کئے
ماتھے کے دریدہ صفحے پر
اک مہرِ ندامت ثبت کئے ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہے
اے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!
یہ طبل و علم یہ تاج و کلاہ و تختِ شہی
اس وقت تمہارے ساتھ سہی
تارریخ مگر یہ کہتی ہے
اسی خلقِ خُدا کے ملبے سے اک گونج کہیں سے اُٹھتی ہے
یہ دھرتی کروٹ لیتی ہے اور منظر بدلے جاتے ہیں
یہ طبل و علم یہ تختِ شہی ، سب خلقِ خُدا کے ملبے کا
اک حصہ بنتے جاتے ہیں
ہر راج محل کے پہلو میں اک رستہ ایسا ہوتا ہے
مقتل کی طرف جو کُھلتا ہے اور بن بتلائے آتا ہے
تختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے

پیر, 04 فروری 2013

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
آدم کی اولادتمہیں کتنا یہ بولا تھا
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.