شعراء 

میرے جسم و جاں کے ہر اک رابطے سے معتبر



میرے ہمسفر
تجھے یاد ہے،تجھے یاد ہے
وہ جو قربتوں کے سرور میں
تیری آرذو کے حصار میں
میری خواہشوں کے وفور میں
کئی ذائقے تھے گھُلے ہوئے
درِ گلستاں سے باہر تک
وہ جو راستے تھے کھِلے ہوئے
سرِ لوحِ جاں
کِسی اجنبی سی زُبان میں
وہ جو خوشنما سے حروف تھے
وہ جو سرکشی کا غبار تھا چار سُو
جہاں اِک دوجے کے رُوبرو
کِسی نغمگی کی خبر مِلی
کسی روشنی کی نظر مِلی
ہمیںروشنی کی نظر مِلی
تو جو رِیزہ رِیزہ سے عکس تھے
وہ باہم ہوئے
وہ باہم ہوئے توپتہ چلا
کہ جو آگ سی ہے شررفشاں مرِی خاک میں
اِسی آگ کا کوئی اَن بُجھا سا نِشان ہے تری خاک میں
اِسی خاک دان میں وہ خواب ہے جسے شکل دینے کے واسطے
یہ جو سچ جھوٹ کا کھیل ہے یہ رواں ہوا
اِسی روشنی سے مکاں بنا،اسی روشنی سے زماں ہوا
یہ جو ہر گُمان کا یقین ہے
اُسی داستان کا بیان تھا
میرے ہمسفر
کِسی دھیان کی کِسی طاق پر
ہے دھرا ہوا
وہ جو اِک رشتہءدرد تھا
میرے نام کا تیرے نام سے
تِری صبح کا مِری شام سے
سرِراہ گُزر ہے پڑا ہوا وہی خوابِ جاں
جسے اپنی آنکھوںسے دیکھ لینے کے واسطے
کئی لاکھ تاروں کی سیڑھیوں سے اُتر کے آتی تھی کہکشاں
سرِآسماں
کِسی ابرپارے کی اوٹ سے
اُسے چاند تکتا تھا رات بھر
میرے ہمسفر
اُسی رختِ غم کو سمیٹتے
اُسی خوابِ جاں کو سنبھالتے
میرے راستے کئی راستوں میں اُلجھ گئے
وہ چراغ جو میرے ساتھ ساتھ تھے بُجھ گئے
وہ جو منزلیں
کسی اور منزلِ بے نشاں کے غبار میںکھو گئیں
کئی وسوسوں کے فشار میںشبِ انتظار سی ہو گئیں
وہ طنابِ دل جو اُکھڑ گئی
وہ سفر تھے اُسی داستانِ حیات کے
جو ورق ورق تھی بھری ہوئی
میرے شوق سے تیرے رُوپ سے
کہیں چھاؤں سے ، کہیں دھوپ سے
میرے ہمسفر تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ھے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اُسے دیکھتے،اُسے جھیلتے
مری آنکھ گرد سے اٹ گئی
مرے خواب ریت میں کھو گئے
مرے خواب برف سے ہوگئے
میرے ہمسفر
میرے بے خبر تیرے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو اک ربط تھا درمیاں
وہ بکھر گیا
کسی شام ایسی ہوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِشاخِ جاں
وہ گرِ گئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر
وہ اُڑ گئے
وہ جو رستوں کے یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مٹ گئے
میرے ہمسفر
ہے وہی سفر
مگر اک موڑ کے فرق سے
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے ، اُسے کاٹتے
میرا سارا وقت نِکل گیا
تُو میرے سفر کا شریک ہے
میں تیرے سفر کا شریک ہوں
پر جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقینی کے غبار میں
اُسی راہ گُزر کے حصار میں
تیرا راستہ کوئی اور ہے
میرا راستہ کوئی اور ہے

پیر, 04 فروری 2013

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
آپ یہ زہر مت پیا کیجئےتمہیں کتنا یہ بولا تھا
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.