بے فیض رفاقت

بے فیض رفاقت میں ثمر کس لئے تھا
جب دھوپ تھی قسمت تو شجر کس لئے تھا

پردیس میں سونا تھا تو چھت کس لئے ڈالی
باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کس لئے تھا

جس خاک سے پھوٹا ہے اسی خاک کی خوشبو
پہچان نہ پایا تو ہنر کس لئے تھا

اے مادر گیتی تیری حیرت بھی بجا ہے
ترے ہی کام نہ آیا سر ، تو کس لئے تھا

یوں شام کی دہشت میں سر دشت ارادہ
روکنا تھا،تو پھر سارا سفر کس لئے تھا

Posted on Nov 12, 2013