ہم اسکے سامنے عرض ہنر بھی بھول گئے

یہ کیسا خوف تھا کہہ رخت سفر بھی بھول گئے

وہ کون لوگ تھے کہہ اپنے گھر بھی بھول گئے

یہ کیسی قوت پرواز در نے پیدا کی

پرندے اڑتے ہوئے اپنے پر بھی بھول گئے

دکھوں نے چھین لی آنکھوں کی ساری بینائی

ہم اسکا شہر تو کیا رہ گزر بھی بھول گئے

خیال تھا کہہ سنائیں گے حال دل لیکن

ہم اسکے سامنے عرض ہنر بھی بھول گئے

جدا ہوئے تو کھلا ہے تمہاری بستی میں

ہم اک دل ہی نہیں چشم تر بھی بھول گئے

Posted on Sep 08, 2011