تمھارے نام سے پہلے

تمھارے نام سے پہلے

ہمیں آکر منا لینا کسی بھی کام سے پہلے
اُداسی ٹھہر جاتی ہے تمھارے نام سے پہلے

کہاں بچھڑا ہوا کوئی ، سفر کے بعد ملتا ہے
ہمیں مل کر ہی جانا تم سفر کی شام سے پہلے

یہی تارے تیری آنکھوں کی چلمن میں رہتے تھے
یہی سورج نکلتا تھا ، تمھارے بام سے پہلے

میری آنکھوں کو تیری انگلیوں کی آرام کی عادت ہے
یہ آنکھیں سو ہی جاتی تھیں بڑے آرام سے پہلے

تیری آنکھوں کو دیکھا تو فقط اتنا خیال آیا
گزرا کس طرح جیون سلونے جام سے پہلے

دلوں میں پھول کھلتے ہیں تمھارے نام سے پہلے
لہو میں دیپ جلتے ہیں تمھارے نام سے پہلے

دلوں کی جگمگاتی بستیاں اعتراض کرتی ہیں
وہی جو لوگ لگتے ہیں نہایت عام سے پہلے

ہوا ہے وہ اگر منصف ، تو امجد احتیاطً ہم
سزا تجویز کرتے ہیں کسی انجام سے پہلے . . . . . . . . . . ! !

Posted on Feb 16, 2011