دسمبر اب کے آؤ تو

دسمبر اب کے آؤ تو

دسمبر اب کے آؤ تو
تم اس شہرتمنا کی خبر لانا
کے جس میں جگنوں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا پل بھر
مہک اٹھا

دسمبر اب کے آؤ تو
تم اس شہر تمنا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کے ذرے ستارے ہیں
گل و بلبل ، ماہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے ، جس کے کئی کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بےخودی نغمیں سناتی ہے
دسمبر ہم سے نا پوچھو ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹھری ہے
لبوں پر ال آتش ہیں ، باتوں میں فاقے پنپتے ہیں

محبت برف جیسی ہے یہاں
اور دھوپ کے کھیتوں میں اگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے
تو شب کے سارے سپنے
راکھ کے ایک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں
اپنے لیکھوں کو دبو کر ہم
سنہرے خواب بنتے ہیں
پھر ان خوابوں میں جیتے ہیں
انہی خوابوں پے مارتے ہیں

دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی
دسمبر اب کے آؤ تُو
تم اس شہر تمنا کی خبر لانا . . . . . ! ! !

Posted on Feb 16, 2011