یہ کیسا الوداعی گیت

یہ کیسا الوداعی گیت

یہ کیسا الوداعی گیت گایا دسمبر نے
جاتے جاتے نرگسی موسم کو رلایا
کہیں پے لالہ زر بنیا
گلاب موتیا چنبیلی سے
ٹیولپ کی لڑیوں سے گوند کے
پیار کے رنگوں سے سینچ کے
پریوں سی خویشوں کے جھرمٹ
میں
ہمارے لبوں پے
دعاؤں کے الوداعی کلمات
تم ہمیشہ رہو میرے سات
مرمریں ہتھیلیوں پے نئی
امیدوں کے روشن چراغ
صدیوں سے چاند کی دیوی
کاٹ رہی ہے چرخہ
نرم نرم گالوں سے
پریم کی دھنک سے دھنک رہی ہے
ہر آنے والی صبح کو
رب نے دیا ہے سب کو یہ ہی پیغام
آج جاتی دسمبر کی شام
انسانیت کے نام
محبت آزادی شانتی امن ہے
سب کی جانِ
نفرتوں کو کر دو تمام
چھوٹی سی ہستی ہے یہ
پیار سے بستی ہے
ہمیشہ سے ہے
ہمیشہ رہیںگے
میں اور نیلا آسمان

Posted on Feb 16, 2011