مجھے بھول جانا

مجھے بھول جانا

وہ دسمبر کی اُداس شام تھی

جب گلی کے سنسان موڑ پہ

اس نے میرا ہاتھ تھاما تھا

کتنے آرام سے اس نا کہا تھا

" مجھ بھول جانا "

میں تُو آج بھی حیران ہوں

کیسے سوچ لیا اسنے

کہ اتنا آسان ہوتا ہے

روح کے رشتوں کو توڑ کر

رستہ بدل لینا

کسی کو چھوڑ دینا

فقط

یہ کہہ کر

کے

" مجھ بھول جانا "

Posted on Feb 16, 2011