اسلامی دنیا 
29 اپریل 2011
وقت اشاعت: 10:0

فلسطین

صدیوں سے مسلم تہذیب کا گہوارہ ہے۔ مسجد اقصیٰ یعنی ہمارا قبلہ اول یہیں واقع ہے۔ اس مقدس سر زمین کا کل رقبہ دس ہزار چار سو تیس مربع میل یعنی ہمارے آزاد کشمیر سے دوگنا اور قبائلی علاقہ جات سے کوئی چھ صد کلو میٹر کم ہے۔ بحر اوقیانوس کے جنوب مشرقی دہانے پر پھیلی ہوئی یہ ریاست مصر، اُردن، لبنان اور شام سے اپنے ناطے جوڑتی ہے۔ خالد بن ولید نے 736عیسوی میں اسے فتح کیا۔ 1917ء تک مسلمانوں کے تابع رہا ماسوائے 86 سالوں کے قلیل عرصے (1185ء تا1099ء) کہ جب عیسائیوں نے یہاں اپنا قبضہ جمایا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ اسے سلطنت اسلامیہ کا حصہ بنا دیا۔ مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے انگریزوں نے 1918ء میں یہاں پھر قبضہ جما لیا۔
اس میں شمال سے جنوب تک لمبی پہاڑیوں کا سلسلہ ہے۔ مشرق میں دریائے رفت کی وادی اور وسیع میدانی خطے ہیں۔ عربی یہاں کی قومی زبان ہے یروشلم، تل ابیب، حیفا، جافا، نظارتھ، برشیبا، ہیبرون، نابلوس، سماریا اور غزہ اس کے مشہور شہر ہیں۔ پہاڑوں پر رہنے والے، بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔

1918ء میں برطانوی فیصلہ فلسطین پر نافذ کیا گیا اُس وقت یہاں 93 فیصد یعنی سات لاکھ آٹھ ہزار مسلمان آباد تھے۔ جبکہ اصل یہودی صرف سات فیصد یعنی ستاون ہزار تھے۔ 1948ء میں برطانیہ کے اخراج کے وقت بھی یہاں 13لاکھ 29 ہزار مسلمان موجود تھے جب کہ یہودیوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ اب فلسطین میں یہودیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے لیکن مسلم آبادی میں سے 19لاکھ کو مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے بے دخل ہونے کے بعد پناہ گزینوں کی سی زندگی بسر کرے۔ یہ اقوام متحدہ عالم اسلام اور امن پسند قوموں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
آئیوری کوسٹالجزائر
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.