تازہ ترین سرخیاں
 سائنس وٹیکنالوجی 
4 اگست 2012
وقت اشاعت: 12:33

امریکہ انٹرنیٹ کا کنٹرول دینے کا مخالف

امریکہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کو اقوام متحدہ کے اختیار میں دینے کی تمام کوششوں کی مدافعت کرے گا۔

فی الوقت امریکہ میں انٹرنیٹ سے متعلق تمام تکنیکی باریکیوں اور ڈومین نیم یعنی انٹرنیٹ ایڈریس دینے کا کام وہ غیر کاروباری تنظیمیں کرتی ہیں جن کا حکومت کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا لیکن محکمۂ کامرس کے تحت کام کرتی ہے۔
اس طرح کی قیاس آرائیاں ہیں انٹرنیٹ اور فون کے بڑھتے استعمال کے سبب انٹرنیٹ کے کنٹرول کی پالیسوں میں بعض تبدیلیاں لائی جائی سکتی ہیں اور اس سلسلے میں بعض ممالک تبدیلوں کا مطالبہ کریں گے لیکن کوئی بھی ملک امریکہ کو اس سلسلے میں مجبور نہیں کر سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی انٹرنیٹ کے استعمال کو فروغ دینے والی ایجنسی انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین کو دستاویزات پیش کی ہیں جس میں اس نے اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔

آئی ٹی یو اس برس دسمبر میں انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن ریگیولیشن پر نظر ثانی کرنے کے لیے دبئی میں ایک کانفرنس منعقد کر رہی ہے جس میں ایک سو اٹھہتر ممالک کے نمائندے حصہ لیں گے۔

آئی ٹی آر 1988 میں منظور کی گئی قراردار ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ مختلف مواصلاتی نیٹ ورکس کے درمیان کس طرح سے انٹرنیٹ ٹریفک کا بہاؤ ہوگا اور مختلف ممالک کے درمیان انٹرنیٹ کے اشتراک کی قیمت کس طرح سے طے کی جائے۔

انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بڑھتے استعمال کے پیش نظر اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ انٹرنیٹ کے اختیار کی پالییسیوں پر نظر ثانی کی جائے حالانکہ اطلاعات کے مطابق بعض ممالک ان تبدیلیوں کی مخالفت کرنے والے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے کانفرنس کو ایک خط لکھ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے جاری کیے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ کو اس بات کی فکر ہے کہ بعض حکومتوں کی جانب سے دی گی تجاویز عالمی ٹیلی کام سیکٹر پر انٹرنیٹ کے کنٹرول سے متعلق بوجھ مزید بڑھا دیں گی‘۔

آئی ٹی یو کسی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کو عام نہیں کرتا ہے حالانکہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ روس نے کہا ہے کہ آئی ٹی یو کو کم از کم انٹرنیٹ ایڈریس دینے کی ذمہ داری دے دینی چاہیے۔

آئی ٹی یو نے یہ واضح کردیا ہے کہ آئی ٹی ار قرارداد میں کوئی بھی تبدیلی اس وقت تک نہیں کی جائے جب تک سبھی ممالک متفقہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔

متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.