راتوں کی سیاہی میں سحر گھول رہے ہیں

راتوں کی سیاہی میں سحر گھول رہے ہیں
گونگے ہیں جہاں سب ، وہاں ہم بول رہے ہیں

بکتے ہیں نا جھکتے ہیں نا دبتے ہیں کہیں وہ
کچ لوگ جہاں میں بڑھے انمول رہے ہیں

ہم یوں بھی حقیقت کو کبھی جان نا پائے
ہر شخص کے چہرے پہ کئی خول رہے ہیں

کردار نگاری بھی بہت خوب نہیں تھی
اس الجھی کہانی میں کئی جھول رہے ہیں

صد حیف کے خودداری کو یوں بھینٹ چڑھا کے
ہاتھوں میں ہمارے صدا کشکول رہے ہیں

کچھ لوگ فقط اپنے مفادات کی خاطر
اک زہر سا ماحول میں کیوں گھول رہے ہیں

کچھ وہ بھی ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں زہرہ
کچھ ہم بھی کے پرواز کو پر طول رہے ہیں

Posted on Feb 16, 2011