تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کیسے بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

حدیث یار کے عنوان نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

صباء سے کرتے ہیں غریب نصیب ذکر وطن
تو چشم صبحوں میں آنسوں اُبھارنے لگتے ہیں

وہ جب بھی بات کرتے ہیں اس نطق او لب کی بَخَیْر گیری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

ڈر قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتے ہے
تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

Posted on Feb 16, 2011