اب تو کسی بھی بات پے اعتبار نہیں ہوتا 
 ہوتے ہیں بس سمجھوتے دلوں کے ، کوئی پیار نہیں ہوتا 
 
 کتنا بھی سمجھا لیں ہم ، اس دل نادان کو 
 ایک قطرہ کبھی ، کوئی ساگر نہیں ہوتا 
 
 دل میں لیے حسرت کسی کی یہ عمر گزر جاتی ہے 
 کے تقدیر پے کسی کی اپنی ، اختیار نہیں ہوتا 
 
 لگتے ہیں جو پل سہانے ، وہ ہیں میرے بس خوابوں کے 
 حقیقت میں کبھی خوشی کا ، دیدار نہیں ہوتا 
 
 ڈھل جاتے ہیں یہ اشک ، ایک اور غم کی راہ لیے 
 ان ہونٹوں کو اب کسی ہنسی کا ، انتظار نہیں ہوتا . . . ! 
Posted on May 19, 2012

سماجی رابطہ